نیشنل کالج آف آرٹس کی ایک تجریدی لڑکی کے نام
توکن رنگوں کی دہشت سے
اپنے فحش سوالوں کے ناخون بڑھاتی رہتی ہے
خوابوں کی دھندلی لذت میں
اپنی کچی مسیں بھگوتے لڑکوں کی
نیند اُدھیڑتی رہتی ہے
تیرے پرس کے آئینے میں
تیری خفیہ شکل چھپی ہے
امرودوں سی چھاتیاں جن پر
ململ کی باریک سی مدھم دھوپ بچھی ہے
جیبوں میں جنگلی دیو مالا
اور چہرے پر چڑھتے تند دھوئیں کا ہالہ
تیری شطرنجی آنکھوں میں
کیسے نقشے کھنچے ہوئے ہیں
کس غیبی بوسے کی خاطر
تیرے لب یوں کھلے ہوئے ہیں
آ میں تجھ کو
خواہش کے عریاں موسم میں
رنگ لگاوں
بانہوں کے اِیزل پر تیرا چہرہ رکھ کر
ہونٹ سے تیری شکل بناؤں
ایسے بھی کچھ دن ہوتے ہیں
ایسے بھی کچھ دن ہوتے ہیں
جن کی جیب میں نہ اخبار نہ گھڑیوں کے بیکار الارم
چڑھتے اور اترتے بھاؤ، کچھ نہیں ہوگا
ان کے منہ میں افواہوں کی جھاگ نہ ان کے چہروں پر
کسی ڈراؤنی سازش کی دہشت ہوتی ہے
بھولے بھالے سے معصوم یہ دن
ایسے دنوں میں لاؤڈ سپیکر
شہر سے ہجرت کر جاتے ہیں
بازاروں میں ساری دکانیں یکدم غائب ہو جاتی ہیں
جلسے اور جلوس کی رسمیں مٹ جاتی ہیں
ان کی کھلی ہوئی کھڑکی سے ناں تو
یخ آلود ہوا آتی ہے
اور ناں ان کے دالانوں میں لُو چلتی ہے
ان کا تو بس اپنا ہی موسم ہوتا ہے
گردن میں پھولوں کے مفلر
کانوں میں بل کھاتی مندری
جھومتے ننگ منگے سے دن
یہ دن یہ دن
بے موسم پیڑوں سے تازہ سیب چرا کر
جسموں کے پاتال میں سوئی
اک جنگلی دیو مالا آن جگا دیتے ہیں
جانے کیسے دروازوں سے
ازلوں کی سرگوشی بن کر چھا جاتے ہیں
Illustration by Isma Hasan
Subscribe for new writing
Sign up to receive new pieces of writing as soon as they are published as well as information on competitions, creative grants and more.