Read time: 1 mins

پدما سرخ ہے:-۱۹۷۱ء میں ہونے والی بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کی ایک ڈائری سے اقتباس

by Anwar Shahid Khan
14 June 2021

مارچ ۲۸

لاﺅڈ اسپیکر کی چیخ وپکار نے چونکا کر نیند سے اٹھا دیا ۔ ایک آواز کہہ رہی تھی کہ کرفیو جو صبح سات ہونے بجے ختم  والا تھا جاری رہے گا ۔ اس کے تھوڑی ہی دیر بعد تڑ ۔۔۔۔۔ تڑ ۔۔۔۔۔ تڑ گولیاں چلنے کی آواز قریب ہی سنائی دی ۔سب اٹھ کر باہر دیکھنے لگے، لیکن کچھ معلوم نہ ہوسکا ۔ بچوں کے چہرے خوف سے سفید ہوگئے۔ اس کے بعد تو یکے بعد دیگرے فائر اور جوابی فائر کی آوازیں آنے لگیں۔ اچانک ایک دھماکے نے زمین کو ہلادیا ۔  دل سے آواز نکلی یا اللہ خیر۔ اندازہ تھا کہ آرمی پولیس پر گولہ باری کررہی ہے۔ اس کے بعدہر دھماکے پر دل بیٹھ سا جاتا۔ متواتر آٹومیٹک فائر کے علاوہ اکہرے فائر کی بھی آواز آرہی تھی ،جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ باقاعدہ لڑائی ہورہی ہے ۔ دل میں ہزاروں قسم کے سوال اٹھ رہے تھے ۔  دوپہر کو مالی طاہر خبر لایا کہ پولیس لائن کی طرف سے دھواں  رہا ہے۔ امداد کی چھوٹی بہن بہت گھبراگئی تھی ، میں نے اسے بہلانے کے لئے لوڈو میں لگالیا۔ تھوڑی دیر بعد طاہر پھر خبر لایا کہ ای پی آر نے آرمی پر حملہ کردیا ہے۔ اکثرگاڑیاں ختم کردی ہیں اور ای پی آر توپ بھی استعمال کررہی ہے لیکن کسی کو یقین نہیں آیا ۔ ہم لوگ سب کچھ بھول کر رنگ کھیلنے لگے تاکہ سب کا دل بہلا رہے ۔لیکن ٹھیک اس وقت دیکھا کہ سامنے کے محلے والے سب بھاگ رہے ہیں۔  پوچھا تو معلوم ہوا کہ ملٹری گھروں کو آگ لگاتی اس طرف آرہی ہے ۔ یہ خبر سن کر بڑی پریشانی ہوئی ،یہ نازک لمحہ تھا چچاجان بھی گھبراگئے کہنے لگے   مجھے اپنی جان کی اتنی فکر نہیں ہے جتنا کہ تمہاری چچی جان اور بہنوں کی ہے ، اگر فوج والے دست درازی پر اتر آئے تو ساری زندگی کا جینا بیکار ہوجائے گا۔  میں نے انھیں یقین دلایا  کہ انشاءاللہ ایسی کوئی بات نہیں ہوگی۔  امداد مجھے علیحدہ کمرے میں لے گیا کہنے لگا  شاہد بھائی زندگی کی صبح بھی نہ ہوئی تھی کہ شام ہوگئی ، مجھے موت سامنے نظرآرہی ہے، اور میں مرنے کے لئے تیار ہوں۔  میں نے سب کی ڈھارس بندھائی اور دلاسا دیا ۔میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھاکہ کیا کچھ ہو سکتا ہے اور کیا کچھ کیا جاسکتا ہے ۔ مجھے یقین تھا کہ میں مغربی پاکستانی بلکہ لاہوری  ہونے کی حیثیت سے سب گھر والوں کی جان وعزت کی حفاظت کرسکوں گا ۔  اپنی جان سے زیادہ مجھے اس وقت سب گھر والوں کی جان پیاری تھی ۔ یہ سوچ کر مغرب کی نماز پڑھی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ مجھے صبر وہمت عطا کرے اور اس امتحان میں پورا اُتارے۔ نماز پڑھ کے آیا تو دیکھا کہ امداد اپنی بہنوں کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہے ۔ وہ خود ہی امامت کررہا تھا، نماز ختم ہوئی تو سب کے ہاتھ دعا کے لئے اٹھ گئے ۔ آہ ، کیسا روح پرور منظر تھا۔ اتنے میں ایک افواہ اڑی کہ ملٹری کے پاس اسلحہ ختم ہوگیا ہے اور سب فوجی جو ادھر آرہے تھے کیمپ کی طرف بھاگ رہے ہیں۔  بعد میں معلوم ہوا کہ افواہ غلط ہے، فوجی مصلحتا ً کیمپ میں چلے گئے ہیں ۔اصل صورت حال کا علم نہ ہوسکا۔

 

مارچ ۲۹

مسلسل ذہنی کھچاؤکے زیرِ اثررہنے کی وجہ سے اب کچھ اچھا نہیں لگتا ، حتٰی کہ ڈائری لکھنے کو بھی دل نہیں چاہتا ۔ آج صبح غیر یقینی سی صورت حال تھی۔ طرح طرح کی افواہیں اڑ رہی تھیں ۔ صبح ایک افواہ سننے میں آئی کہ ای پی آر اور پولیس نے مل کر ملٹری کو ختم کردیا ہے اور شہر ای پی آر والوں کے قبضہ میں ہے۔ خبریں سن رہا تھا کہ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا  تھانے سے اطلاع آئی ہے کہ وہ لوگ ہر اس شخص کو جو بندق چلانا جانتا ہے بلارہے ہیں اور بندوقیں تقسیم کررہے ہیں۔ اسکے تھوڑی دیر بعد مالی خبر لایا کہ پولیس لائن میں سب سپاہی مارے گئے ہیں اور ان کی لاشیں بے گورو کفن پڑی ہیں ،لوگ رائفلیں لے کر بھاگ رہے ہیں ۔ ایک اور افواہ یہ بھی آئی کہ جیل سے تمام قیدی بھاگ نکلے ہیں ۔ مالی کی بات پر کسی نے یقین نہ کیا لیکن تھوڑی دیر بعد ا س کی تصدیق ہوگئی کہ پولیس لائن پر گولہ باری کرکے اسے مکمل طور پر تباہ کردیا ہے اور بہت سے سپاہی مارے گئے ہیں۔ اس ڈر سے کہ ہم لوگ میدان جنگ کے بیچ میں نہ آجائیں خندقیں کھودنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پچھلی جنگ کا تجربہ کام آگیا۔(سنہ ۶۵ء کی جنگ میں میں ہندوستان کی سرحد کے قریب رہتا تھا۔ لڑائی  جلو میں بی آربی کنال پر ہوئی تھی، جوپاکستان منٹ  میں  میرے گھر سے بس چھ میل دور تھی۔)    صبح سے کوئی اعلان نہیں ہوا تھا اس لئے کرفیو کے بارے میں غیر یقینی سی  صورت تھی۔ نظام خبر لایا کہ آرمی نے بھی خندقیں کھودلی ہیں اور آس پاس کے علاقہ میں جھونپڑیوں کو آگ لگادی ہے ۔ ان کی تعداد بھی کم نہیں ہے، اس کے اندازے کے مطابق ایک ہزار ہوگی۔ اس کے علاوہ ریڈیو اسٹیشن بھی ان کے قبضے میں ہے ۔ ڈھاکہ ریڈیو اسٹیشن دوپہر کو البتہ اچانک بند ہوگیا ۔ شام کو آل انڈیا ریڈیو نے خبر دی کہ ڈھاکہ ریڈیو اسٹیشن پر لوگوں نے حملہ کردیا ہے اور خونریز جنگ ہورہی ہے ( ڈھاکہ آنے کے بعد پتہ چلا کہ یہ آل انڈیا کی من گھڑت خبرتھی ۔ ریڈیو اسٹیشن بجلی فیل ہونے کی وجہ سے بند ہوا تھا )۔ بی بی سی کے نمائندے نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ شیخ مجیب کے گرفتار ہوجانے کی خبر صحیح ہے ۔ آج سارا  دن دس بارہ فائر ہوئے ۔ راجشاہی کی ای پی آر کی بغاوت کی جو خبریں آئی تھیں وہ جھوٹی ثابت ہوئیں ۔ ای پی آر ابھی تک فوج کے ساتھ ہے۔ گھر کی یاد کبھی کبھی آتی ہے لیکن گھر جانے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا ، مستقبل کی طرف نظر کرتا ہوں تو  تاریک نظر آتا ہے ۔


مارچ ۳۰ 

زندگی اور موت کی کشمکش میں ہر لمحہ غیر یقینی کے عالم میں گزرہا ہے ۔کبھی کبھی تو موت کے قدموں کی چاپ اتنی نزدیک آجاتی ہے کہ کان سننے لگتے ہیں۔ آزاد فوج کے علاوہ چور ڈاکو وغیرہ جو آج  سب جیل سے فرار ہوگئے، اور  سب سے زیادہ ۔۔۔۔۔ اور سب سے بڑا دشمن جو ہمیشہ ساتھ ساتھ رہتا ہے اور سائے سے بھی نزدیک ۔۔۔۔۔ پیٹ ۔۔۔۔۔ بھوک ۔۔۔۔۔ اگر یہی حالات رہے تو بہت جلد لوگ فاقوں مرنے لگیں گے ۔ آج صبح آنکھ کھلی تو خوفناک مہیب اور اذیت ناک حقائق کا ایک ریلا دماغ میں گھس آیا ،گویا دماغ کی   کھڑکی کھلنے کا ہی انتظار کررہا تھا ۔ خواب بھی ڈراؤنے تھے لیکن پھر بھی خواب تھے ۔  دیکھا تو کلام صاحب آئے بیٹھے تھے ۔ کلام صاحب انشورنس کمپنی کے افسر ہیں ،فورا ًحالاتِ حاضرہ پر بحث شروع ہوگئی ۔وہ کچھ تو قدرتی امید پرست واقع ہوئے ہیں اور کچھ مصلحتاً بن جاتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ لوگ یعنی آرمی والے زیادہ دن تک نہیں لڑسکیں گے اور آخر کار انھیں ہتھیار ڈالنا پڑیں گے ۔ آل انڈیا ریڈیو کی خبروں سے معلوم ہو اکہ چٹاگانگ ، جیسور ، کومیلا، راجشاہی،دیناج پور سب آزاد فوج کے قبضے میں ہیں ۔ آل انڈیا ریڈیو پر لوگوں کو یقین ویسے ہی کم ہے لیکن ان حالات میں تو اس کی سچائی پر اعتبار صرف ایک چوتھائی رہ گیا ہے۔ راجشاہی پر گو آرمی کا تسلط بھی قائم نہیں لیکن یہ آزاد فوج کے قبضہ میں بھی نہیں ہے البتہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ راجشاہی کے مختلف اضلاع میں فوج کی حالت بہت خراب ہے اور جہاں جہا ں ضرورت ہے فوج گولہ باری کررہی ہے ۔ دو ہوائی جہاز صبح صبح راجشاہی پر پرواز کر گئے۔ چند ایک دکانیں اور آفس وغیرہ جو کرفیو اٹھ جانے سے کھل گئے تھے ان ہوائی جہازوں کو دیکھ کر بند ہوگئے ۔رکشوں ، تانگوں پر اور پیدل لوگوں کے قافلے شہر سے گاؤں کی طرف رواں ہیں۔ آج معلوم ہوا کہ پولیس لائن پر جو گولہ باری کی گئی تھی اس میں ان گنت پولیس والے ہلاک ہوئے جن میں سے سترہ کی لاشیں پائی گئیں۔ انھیں جنازہ پڑھا کر دفن کردیا گیا ۔ اتنے ہی لوگوں کو فوج گرفتار کرکے لے گئی ،  بعد میں ڈپٹی کمشنر کی سفارش پر چھوڑ دیا ۔   دوپہر کو خبر آئی کہ راجشاہی کے ایک قصبہ پر آزاد فوج کا قبضہ ہے اور اب وہ راجشاہی کی طرف بڑھ رہی ہے، پولیس اور ای آرپی بھی ان کے ساتھ ہیں ۔ آرمی نے اب شہر میں ریڈیو اسٹیشن ، ٹیلیگراف ، ٹیلفون اور پاور ہاؤس کے علاوہ باقی جگہوں پر پہرہ دینا چھوڑ دیا ہے ۔ ان کا مورال کافی بلند معلوم ہوتا ہے۔ اناج کے ایک گودام کو اپنے قبضہ میں لے کر انھوں نے اپنی پوزیشن اور مستحکم کرلی ہے ۔ چند افواہوں کے ذریعہ یہ بھی معلوم ہوا کہ پبنہ میں فوج کی حالت بالکل ابتر ہے اور خیال ہے کہ بہت جلد پبنہ پر آزاد فوج کا قبضہ ہوجائے گا۔ شام کو آل انڈیا ریڈیو سے خبر ملی کہ یونیورسٹی پر بمباری ہوئی ہے۔ اندازہ ہے کہ پچاس کے قریب یونیورسٹی کے پروفیسر مارے گئے ہیں ،اسپتال پر بھی بمباری کی گئی ہے ۔ آسٹریلیا ریڈیو سے یہ خبر بھی ملی ہے کہ جنرل ٹکا خان زخمی ہونے کے بعد مارے گئے ہیں ۔ اس وقت آل انڈیا ریڈیو سے جو خبر یں نشر ہورہی ہیں ، ان میں اس وقت یہ خبر نشر ہورہی ہے کہ ڈھاکہ کنٹونمٹ اور ائیر پورٹ پر قبضہ کرنے کے لئے زبردست لڑائی جاری ہے ۔ ہندوستان اپنی پوری کوشش کررہا ہے کہ اس موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھاسکے ۔ ریڈ کراس کا ایک جہاز کل ڈھاکہ پہنچنے والا ہے۔ آج چچاجان تھانہ سے اپنی دونوں رائفلیں لے آئے لیکن سنا ہے کہ آج اعلان کیا گیا ہے کہ واپس کرنی پڑیں  گی۔  صبح خاکروب آیا تو کہنے لگا کہ اس کے دوساتھی مارے گئے  ہیں اس لئے وہ پہلے نہیں آسکا۔ حالات اتنے غیر یقینی ہیں کہ کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ کل کیا ہوگا۔ دونوں فریق ہر قیمت پر فتح  حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور نیتجہ ۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔زندگی جب اتنی سستی ہوجائے تو اس کی کوئی قیمت نہیں رہتی ۔سارا دن افواہیں سنتے سنتے یہ حالت ہوجاتی ہے کہ ذہن کی رگوں میں مزیدکھچاؤ کی طاقت نہیں رہتی ،شام ہونے سے پہلے ہی سر میں درد ہونے لگتا ہے۔

 

مارچ ۳۱

رات گذر گئی ۔ صبح آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ امداد ریڈیو پر بی بی سی سے خبریں سننے کی کوشش کرہا ہے لیکن ابھی خبروں کا وقت نہیں ہوا تھا اور ایک لوک دھن انگریزی میں بج رہی تھی ۔ اس پیچیدہ سے ماحول میں گاؤں کی یہ سادگی بہت بھلی معلوم ہوئی ۔اُٹھ کر ہاتھ منہ دھویا ناشتہ کیا۔چائے  جب تک نہیں بنی تھی ۔ آل انڈیا ریڈیو سے خبریں نشرہو رہی تھیں۔ جا کر سب کے ساتھ بیٹھ گیا، تھوڑی دیر میں دیکھا تو چچی جان خود ہی چائے لئے چلی آرہی ہیں ۔ دل ممنونیت کے جذبات سے لبریز ہوگیا۔ چائے کے ساتھ ساتھ تازہ خبروں کی تلخی منہ میں گھلنے لگی۔  ڈھاکہ ریڈیو اتنے دن سے بند تھا آج سنا جارہا ہے ۔ آل انڈیا ریڈیو کی خبر تھی کہ اس پر آزاد فوج کا قبضہ ہے لیکن ڈھاکہ ریڈیو والوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے اس کی وجہ بجلی کی خرابی بتائی ۔ آل انڈیا ریڈیو نے کل بھی خبر دی تھی کہ ڈھاکہ کنٹونمنٹ اور ائر پورٹ پر قبضہ کرنے کے لئے مجیب کے حامیوں اور فوج کے درمیان زبردست لڑائی جاری ہے لیکن وہا ں سے اڑے ہوئے جہازوں کو دیکھ کر یقین نہ آیا ۔آج آل انڈیا ریڈیو کی خبر ہے کہ ڈھاکہ شہر پر مجیب کے حامیوں کا قبضہ ہوگیا ہے ، جس پر بھی کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں۔ البتہ یوگو سلاویہ اور ٹیلی گراف ( لندن) کے نمائندوں کے حوالے سے یہ خبریں صحیح معلوم ہوتی ہیں کہ یونیورسٹی کے ہالوں پر بمباری کی گئی ہے ۔لوگ ہزاروں کی تعداد میں دیہات کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ کشتیہ کو میلا اور چٹاگانگ میں لڑائی جاری ہے جبکہ مختلف جگہوں پرجہازوں نے بمباری کی ہے ۔۔۔۔۔لوگ اس بغاوت کو غداری کا نام دے رہے ہیں ۔۔۔۔۔ میں اس تذبذب میں ہوں کہ اسے غداری کہوں یا محض ایک ردّعمل جو چوبیس سالہ جبری استحصال نے پیدا کیا ہے ۔ تاریخ پر نظر ڈالتا ہوں تونظر آتا ہے کہ اس خطے کا پاکستان بنانے میں کتنا بڑا حصہ ہے ۔۔۔۔۔ خود لیاقت علی خان یہیں سے مسلم لیگ کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے ۔شیرِ بنگال کے کارناموں کو بھی فراموش کرنے کو دل نہیں چاہتا ۔ مجھے وہ رضا کار بھی یاد آتے ہیں جو سید احمد شہیدکی تحریک میں حصہ لینے کے لئے یہاں سے پیدل چل کر پنجاب ، سرحد اور کشمیر پہنچے اور ۱۹۶۵ ءکی جنگ میں بنگال رجمنٹ کے کردار کوسبھی نے سراہا بلکہ کہا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ تمغے اسی رجمنٹ نے جیتے ۔اُس زمانے میں یہاں کے عوام کا جوش وخروش بھی کسی سے کم نہیں تھا ۔۔۔۔۔ میں سوچتا ہوں اور ۔۔۔۔ بس سوچتا ہی رہ جاتا ہوں کہ ہم تاریخ کے کس دوراہے پر آکھڑے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔

ابھی ابھی ریڈیو آسٹریلیا سے خبر آئی ہے کہ مشرقی پاکستان کے بڑے شہروں کے علاوہ ڈھاکہ پر بھی فوج کامکمل قبضہ ہے اور ابتدائی مزاحمت ختم کردی گئی ہے۔ریڈیو آسٹریلیا کی خبریں سن کر بیٹھے ہی تھے کہ ہیلی کاپٹر کی گھر ،گھر سنائی دی ۔باہر نکل کر دیکھا تو ائر فورس کا ایک ہیلی کاپٹر انتہائی بلندی پر پرواز کررہا تھا ۔ آہستہ آہستہ چکر کاٹ کر وہ نیچے آیا اور آرمی کیمپ پر اتر گیا۔ فوراً ہی افواہ پھیل گئی کہ ہیلی کاپٹر نے بہت سے بکس اور سپاہی اتارے ہیں ۔ایک اور افواہ سننے میں ملی کہ پبنہ پر آزاد فوج کا قبضہ ہے اور فوج وہاں سے میدان چھوڑ چکی ہے ۔ دوسری افواہوں کی طرح اس پر بھی یقین کرنا مشکل تھا۔ راجشاہی میں فوجی سارا دن اپنے کیمپ سے باہر نہیں نکلتے اور بیشتر اوقات مورچوں میں رہتے ہیں ۔ شام تک افواہوں کی کوئی تصدیق نہیں ہوئی ۔ بہرحال اب یہ بات یقین سے  کہی جاسکتی ہے کہ فوج کا تسلط اب صرف کیمپ تک ہے اوراگر  آزاد فوج  کا ایک حصّہ بھی یہاں منظم ہوجائے تو ہماری فوج کے لئے سبنھا لنا مشکل ہوجائے گا۔ شام کو حسب معمول تھوڑا بہت کھیل کود کر دل بہلایا ۔ مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد باہر سب کرسیاں ڈال کر بیٹھ گئے ۔ لطیفےکہانیاں قصے چھڑ گئے۔ اس وقت معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کہ یہاں سے صرف ایک ڈیڑھ میل کے فاصلے پر موت لکڑی کے بکسوں میں چھپی بیٹھی ہے ۔ مورال سب سے اہم چیز ہے ۔خوف سے تھر تھر کانپ کر مرجانے سے بہتر ہے کہ حوصلہ بلند رکھتے ہوئے ہر قسم کے حالات کا عزمِ صمیم سے مقابلہ کیا جائے ۔ 

اپریل ۲

کل یکم اپریل کی ڈائری نہیں لکھ پایا ۔ لکھنے کی فرصت ہی کہاں ملی ۔ فرسٹ اپریل تھا ،فول بنتے بنتے رہ گئے ۔ پرسوں افواہ سنی تھی کہ آرمی پر بہت بڑا حملہ ہونے والا ہے کل اس افواہ کو تو جیسے پر لگ گئے، ہر شخص یہی کہہ رہا تھاکہ جلدی سے بھاگو حملہ ہو نے والا ہے لیکن سوال یہ تھا کہ آسمان سے گر کر کس کھجور پر اٹکیں۔ فیصلہ ہوا کہ یہاں سے تین میل کے فاصلے پر قیوم مالی کا گاؤں ہے اسکے گھر میں پناہ لی جائے۔ قسمت کے نرالے کھیل کے بارے میں بہت سی کتابوں میں پڑھا تھا ۔ اب ہم خود انہی کہانیوں کے کردار تھے۔ آن کی آن میں سامان بندھ گیا۔ امداد جانے کے حق میں نہیں تھا ،کہنے لگا  آپ سب جائیں میں یہیں رہوں گا۔ چچی جان کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں ،کہنے لگیں تم لوگوں کے بغیر بچ کر زندہ رہنے کا کیا فائدہ مریں گے تو سب اکٹھے ہی مریں گے ، ہم بھی یہی رہیں گے۔  امداد اس پر پگھل گیا اور جانے کے لئے تیارہوگیا۔  تھوڑی دیر بعد چچاجان کہنے لگے تم سب لوگ جاؤ، میں گھر کی حفاظت کے لئے رہتا ہوں۔  چچی پھر آبدیدہ ہوگئیں اور آخر کار یہ فیصلہ ہوا کہ جہاں جائیں گے سب اکھٹے ہی جائیں گے ۔ سامنے کے مکان سے مشتا ق صاحب جو ہمارے ساتھ ہی کہیں جانے کا پروگرام بناکر آئے تھے اپنی جیپ لے کر قیوم مالی کے گھر روانہ ہوگئے ۔کیونکہ اپنی جیپ خراب تھی اس لئے ہم سب کو مشتاق صاحب کی جیپ میں جاناتھا۔مشتاق صاحب کی جیپ اس طرف جانے کے کچھ دیر بعد ہی آرمی کی چار جیپیں انتہائی تیز رفتاری سے اسی طرف جاتی دکھائی دیں ۔ہم سب سمجھ گئے اب مشتاق صاحب گاڑی بھیجنے کے نہیں۔ اتنے میں کلام صاحب آگئے کہنے لگے اس وقت باہر جانا مناسب نہیں کیونکہ اس افواہ کی صداقت پر شبہ ہے۔ تھوڑی سی بحث کے بعد ہم متفق ہوگئے کہ باہر جانامناسب نہیں ۔اتنے میں قیوم خبر لے کر آیا کہ مشتاق صاحب کی گاڑی خراب ہوگئی ہے۔ اس کے ذریعہ مشتاق صاحب کو پیغام بھجوایا کہ ہم لوگوں نے جانے کا فیصلہ ملتوی کردیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد مشتاق صاحب واپس آگئے ۔ان کی زبانی معلوم ہواکہ یہ چار پانچ گھنٹے انھیں آم کے پیڑ کے نیچے بسر کرنا پڑے کیونکہ قیوم کے تمام رشتہ دار ا س کے گھر میں جمع ہوگئے تھے ۔ ہم نے خدا کا شکر ادا کیا کہ خواہ مخواہ کی تکلیف سے محفوظ رہے۔چونکہ حالات مخدوش ہوگئے ہیں  اس لئے میں نے اوربلال نے پہرہ دینے کا فیصلہ کیا ۔ رات کو جلد اٹھ سکیں اس لئے سر شام ہی سوگئے ۔ دو بجے آنکھ کھلی باہر نکلے  گھر کا چکر لگایا ۔ نظام ، علی ، طاہر سب نوکروں کی ڈھارس بندھائی۔  انھیں اس رات پہرہ دینے پر معمور کیا گیا تھا۔ ہمیں جاگتا دیکھ کر ان کے حوصلے بلند ہوگئے تھے ۔ اچانک مغرب کی طرف سے گولیاں چلنے کی آئی اور لمحہ بہ لمحہ بڑھتی گئی۔اس کے ساتھ مشین گن کے برسٹ اور مارٹر کی آواز بھی سنائی دی۔ معلوم ہوتا تھاکہ زبردست لڑائی ہورہی ہے۔ چھت پر چڑھ کردیکھنے کی کوشش کی مگر کچھ پتہ نہ چلا۔ سب نے اندازہ لگایا کہ شایدہندوستان کے ساتھ سرحدی جھڑپ ہورہی ہے کیونکہ سرحد وہاں سے صرف چار پانچ میل کے فاصلہ پر تھی ۔ ساری رات شدید لڑائی کی آواز آتی رہی ۔ صبح معلوم ہوا کہ نواب گنج سے آنے والی باغی ای پی آر پر حملہ کیا گیا تھا ۔ شام کو خبر ملی کہ ای پی آر، آرمی کو گھیرے میں لینے  کے لئے چاروں طرف سے آگے بڑھ رہی ہے۔ 

اپریل ۳

رات ایک بجے کے قریب زبردست دھماکے سے آنکھ کھل گئی ۔ آنکھیں ملتے ہوئے باہر آئے ۔ اندازہ تھا کہ بھاری توپ ای پی آر پر فائر کررہی ہے ۔دو گولے وقفے وقفے کےبعد  داغے جاتے ،توپ سے نکلنے والے شعلے کی روشنی سے آس پاس کی فضا منور ہوجاتی ۔آرمی کیمپ کا فاصلہ گھر سے زیادہ نہیں اس لئے توپ کے ہر فائر سے مکان ہل جاتا اور کھڑکیاں بجنے لگتیں ۔ فائرنگ کا یہ سلسلہ پوپھٹنے تک جاری رہا ۔ صبح خبر آئی کہ ای پی آر نوہاٹا روڈ پر آگے بڑھ رہی ہے ( نوہاٹا روڈ نواب گنج سے راجشاہی کی طرف آتی ہے۔ نواب گنج راجشاہی کا ایک سرحدی قصبہ ہے جہاں ای پی آر نے بغاوت کردی تھی اور اب وہ راجشاہی کی طرف بڑھ رہے تھے)۔یہ بھی پتہ چلا کہ انھوں نے نوہاٹا روڈ پر سب مکانوں کو خالی کرنے کا حکم دیا ہے۔  ہماری رہائش بھی نوہاٹا روڈ پر تھی۔ مشورہ ہوا کہ فوراً مکان چھوڑ دیا جائے لیکن جائیں تو کہاں جائیں؟ پہلے یہ فیصلہ کیا گیا کہ شہر میں ایک ڈاکٹرصاحب کے گھر میں پناہ لی جائے جو کلام صاحب کے دوستوں میں سے تھے لیکن بعد میں کچھ سوچ کر چچاجان نے وہاں جانے کا فیصلہ ملتوی کردیا۔ کلام صاحب تو وہیں چلے گئے لیکن ہم سب لوگ چچاجان کے ایک دوست اور اعلیٰ افسر متین صاحب کے گھر چلے گئے ۔متین صاحب سے پہلے بھی ایک دو دفعہ ملاقات ہوچکی ہے ۔ بوڑھے آدمی ہیں، مطالعہ اچھا خاصہ ہے اوراخلاق کے بھی اچھے ہیں۔گھر کے شمالی کونے میں انھوں نے ہمارے لئے ایک کمرہ خالی کردیا ۔ سامان وغیرہ ڈرائنگ روم میں رکھ دیا گیا ۔اب ہم سب مکمل طور پر مہاجر تھے۔متین صاحب کی رہائش جیل کے نزدیک تھی ۔میں باہر نکلا تو میری ملاقات جیل کے ایک حوالدار سے ہوئی۔ اس نے قصّہ سنایا جیل میں متعین پولیس کے چند سپاہیوں نے جیل کے وارڈروں کے ساتھ مل کر بغاوت کی ٹھانی ۔ سب جیل کے اعلی افسروں کے پاس گئے کہ انھیں رائفلیں دی جائیں لیکن افسروں نے انکار کردیا۔سب لوگ بہت  ناراض ہوئے۔ کسی نے یہ خبر آرمی والوں کو دے دی ۔آرمی نے فوراً جیل کا محاصرہ کرلیا اور مشتبہ آدمیوں کو پکڑ کرلے گئی ۔ مجھے بھی شبہ میں گرفتار کرلیا ۔ہمارا خیا ل تھا کہ ہمیں گولی مار دی جائے گی لیکن میجر صاحب نے ہمارے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا اور ہمیں سمجھا بجھا کر چھوڑ دیا۔  شام کے تین بجے کے قریب اچانک فضا میں گڑگڑاہٹ سنائی دی اور تھوڑی دیر میں شور مچ گیا کہ جہاز آئے ہیں ۔ جیٹ آئے ہیں۔ سب بھاگ بھاگ کر سیڑھیوں کے نیچے جاگھسے۔ ان کا خیال تھا کہ جہاز بمباری کریں گے ۔ میں نے بھی ایک سیڑھی کے نیچے پنا ہ لی۔ لیکن جہاز صرف ای پی آر کی پوزیشنوں پر سٹریفنگ کرکے چلے گئے۔ افواہیں اڑیں کہ انہوں نے نیپام بم بھی پھینکے ہیں جو بعد میں غلط ثابت ہوئیں۔

اپریل ۴

ر ات کو تین بجے بے تحاشہ فائرنگ کی آواز سے سب کی آنکھ کھل گئی۔ ایک مشین گن تو بالکل ہمارے قریب فائر کرتی سنائی دی ۔ رات کے وقت بادلوں سے گھری ہوئی تاریکی میں یہ آوازیں بہت خوفناک معلوم ہوئیں ۔صبح تک پوری شدت سے لڑائی ہوتی رہی۔ صبح کی روشنی کے ساتھ لڑائی کی شدت میں کمی آگئی۔ بس اکا دکا فائر کی آواز کبھی کبھی آجاتی ۔صبح بھی کچھ معلوم نہ ہوسکا کہ کیا ماجرا  تھا۔ آج جہازوں نے تین بار حملہ کیا۔ چونکہ ای پی آر کے ٹھکانے شہر سے تین چار میل دور آرمی کیمپ کے بالکل نزدیک تھے اس لئے جہازو ں کو ہمارے سروں پر آکر غوطے کی پوزیشن لینی پڑتی ۔بچے اب اتنے ہراساں نہیں ہیں بلکہ یہ تو اب ان کے لئے تماشہ بن گیا ہے۔ 

اپریل ۵ 

جہازوں کا پہلا گروپ حملہ کے لئے عموماً دس بجے کے قریب آتا ہے چنانچہ جہازوں کے حملے سے محفوظ رہنے کے لئے میں اور امداد صبح کے سات بجے کے قریب گھر کی خبر لینے روانہ ہوگئے ۔ شہر میں اِکا دُکا لوگ سراسیمگی کے عالم میں پھر رہے تھے ۔ خدا خدا کرکے گھر پہنچے ۔راستے میں کوئی گڑبڑ نہ تھی ۔ گھر پر شکیل اور نِکو  دونوں نوکر موجود تھے ۔ وہ گھر کی رکھوالی کے لئے دن کے وقت یہاں آکر رہتے تھے اور رات ہوتے ہی اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ۔بتانے لگے کہ کل ساری رات فائرنگ ہوتی رہی۔ اتنے میں اعجاز بھی آگیا ۔وہ کلام صاحب کے گھر کی رکھوالی کررہا ہے۔ اس نے بتایا کہ کلام صاحب کے گھر کے پیچھے ایک گولہ پھٹا ہے جس سے پچھلی دیوار کریک ہوگئی ہے ۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ ای پی آر والے رات کو یہاں سے گذر کر شہر کی طرف گئے ہیں ، اس وقت وہیں چھپے ہوئے ہیں۔ اس نے خیال ظاہر کیا کہ ہمارے گھر پر بھی یقینا گولیاں لگی ہوں گی اور تھوڑی دیر میں ڈھونڈ کر دکھا بھی دیا۔چچاجان کی خواب گاہ کی کھڑکی سے چند انچ دور ایک گولی کا نشان تھا۔ یہ گولی ای پی آر کی طرف سے آرمی کی طرف فائر کی گئی تھی ۔ اتنے میں مالی طاہر آگیا ۔ اس نے بتایا کہ اووَرسیئر صاحب کامکان بھی گولیوں سے بلکل خستہ ہوگیا ہے۔ نکو کو گائے کا دودھ دوہنے کےلئے اور شبیر کو مرغیاں ذبح کرنے کے لئے کہہ کر ہم دونوں اووَرسیئر کامکان دیکھنے روانہ ہوگئے جو وہاں سے چند گز کے فاصلے پر تھا ۔ طاہر کاکہنا صحیح تھا ۔ گولیوں کی بوچھاڑ سے دیواریں خستہ ہوچکی تھیں ۔  پپیتے  کاا یک درخت جڑ سے کٹ کر گرگیا تھا ۔ کھڑکی میں سے گذر کر بہت سی گولیاں کمروں میں لگی تھیں۔ میرا خیال تھا کہ یہاں ایک شیل بھی پھٹا ہے ۔ واپس آئے تو گھر کے دروازے کے پاس ایک سانپ سرسراتا ہوا نظر آیا۔ مارنے کی کوشش بھی کی مگر بل میں گھس گیا ۔ دودھ لے کر ہم واپس روانہ ہوئے۔ میں نے اپنے سامان میں سے کپڑوں کاایک اور جوڑااحتیاطاً ساتھ لے لیا۔ ہم جلدی میں گھر سے روانہ ہوئے تھے اس لئے امداد کے سامان کے علاوہ میرا سامان بھی یہیں پڑا تھا ۔ آس پاس کی بستیوں سے دھوئیں کا یک بہت بڑا مرغولہ آسمان کی طرف بلند ہورہا تھا ۔پوچھنے سے پتہ چلا کہ فوجی آس پاس کی زمین کو صاف رکھنے کے لئے مکانوں کو آگ لگارہے ہیں۔ بغیر کسی حادثہ کے ہم واپس متین صاحب کے گھر پہنچ گئے ۔ ابھی دم ہی لیا تھا کہ ہیلی کاپٹر کی آواز گھر گھرسنائی دی اور اس کے ساتھ بچوں کا شور کہ جیٹ آئے ، جیٹ آئے ۔ جیٹ کی آواز سب کو باہر لے آئی ،حسب معمول حملے شروع ہوگئے۔ ہیلی کاپٹر آرمی کیمپ میں اتر گیا ۔ جب وہ اڑا تو اس کے ساتھ ساتھ جیٹ بھی واپس چلے گئے ۔ اس کے بعد د و مرتبہ پھر آئے اور گولیاں برسا کر چلے گئے ۔ متین صاحب کا گھر شہر کے سب سے غیر آباد اور پر سکون علاقے میں ہے ،اس لئے اس طرف خطرہ بھی کم تھا۔ ہم بے فکر ہوکر بیٹھ رہے ۔آل انڈیا ریڈیو سے خبریں سنیں ۔ان خبروں کے مطابق راجشاہی سنٹرل جیل پر جہازوں نے گولہ باری کی تھی اور جیل زمین بوس ہوگئی تھی۔ میری نظر کھلی ہوئی کھڑکی کی طرف چلی گئی۔ سامنے جیل کی کالی اونچی دیوار پر آل انڈیا ریڈیو کے جھوٹ کی داستان لکھی ہوئی نظر آرہی تھی۔


Return to the collection


Illustration by Rohini Mani

About the Author

Anwar Shahid Khan

Anwar Shahid Khan (b. 1949) is a Pakistani journalist who has worked as a reporter, editor and columnist for various Urdu newspapers and magazines in Pakistan for several decades. He continues to write columns for Daily Pakistan Lahore, Daily Mashriq Lahore and occasionally for other Urdu newspapers.

Related